تدریس کے مقاصد بیان کریں نیز تدریس کے جدید نظریہ کی وضاحت کریں۔

جواب جدید نظریہ تدریس
تدریس کا جدید نظریہ ترقی پسند اور جمہوری ہے۔ اس میں طلبہ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس میں تدریس کا مقصد محض بچوں کی ذہنی نشو و نماہی نہیں بلکہ ان کی مکمل نشو و نما ہے۔ اس میں تعلیم کے ہر مرحلے پر بچوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔

انہیں صرف آئندہ زندگی کے لئے ہی تیار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی موجودہ نفسیاتی ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ قدیم نظریے کے برعکس استاد کی جگہ بچوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود استاد کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ بچے اپنے ہاتھ سے کچھ کرتے اور سکھتے ہیں۔

استادان کی رہنمائی کرتا ہے۔ استاد کوئی اجنبی اور غیر مانوس شخصیت نہیں ہوتا۔ وہ مختلف قسم کی سر گرمیاں ترتیب دیتا ہے۔ جس پر طلبہ عمل کر کے دلچسپی کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق استاد اپنی شخصیت کو طلبہ پر مسلط نہیں کرتا بلکہ پس منظر میں رہتا ہے۔ اس نظریے کے تحت طلبہ آزادی کے ساتھ اپنی اپنی رفتار سے ترقی کرتے ہیں۔ استاد کا کام طلبہ کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ وہ ان کی سر گرمیوں کو ٹھیک راستے پر لگائے رہتا ہے۔ یہاں استاد طلبہ کو معلومات رٹنے پر مجبور نہیں کرتا ، بلکہ ان کے لئے مناسب ماحول پیدا کرتا ہے۔

اس نظریے سے عملی سر گرمیوں کے ذریعے طلبہ کی انفرادی صلاحیتوں کی نشو و نما کا بند وبست کیا جاتا ہے۔ فرسودہ طریقہ کار میں محض درسی کتابوں کی تدریس پر زور دیا جاتا ہے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق استاد کو بچوں کی عمر، ان کی ذہنی استعداد ، رجحانات اور میلانات کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔

اس خیال کو اب سختی سے رد کر دیا گیا ہے کہ سختی سے بچنے کی تربیت آسان ہو جاتی ہے۔ سختی اور تشدد سے بچے کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ استاد کا کام روایتی طریقہ تدریس کی نسبت آسان نہیں ہوتا بلکہ زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اسے بچوں کی نفسیات کے مطابق ان کی صلاحیتوں ، استعداد اور رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے سر گرمیوں کا انتظام کرنا اور رہنمائی کرنا ہوتا ہے جو کافی مشکل کام ہے۔

جدید نظریہ تدریس کے مطابق بچے میں اچھی عادتیں پیدا کرنے اور مہارتیں سیکھنے میں اس کی مدد کرنے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بچے کی قوت فکر کو ترقی دی جائے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلے کر سکے اور زندگی میں پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اس میں خود اعتمادی پیدا ہو ۔ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا سیکھ جائے۔ اس طرح معاشرتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

جدید نظریہ تدریس میں کردار کی تشکیل اور سیرت بنانے کی طرف دھیان دیا جاتا ہے۔ بچوں کو کھیل کود کے مواقع فراہم کئے جاتاے ہیں۔ وہ مدرس کی مختلف سرگرمیوں میں شریک ہو کر اپنے رجحانات و میلانات کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس طرح نہ صرف ان کی نشو و نما ہوتی ہے بلکہ ذہنی اخلاقی، روحانی اور ہمہ گیر تربیت بھی ہوتی ہے۔ طلبہ کو علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عمل کی طرف بھی راغب کیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا مفید اور کار آمد رکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تدریس کے مقاصد
تدریس کی نوعیت کا تعین اس کے مقاصد کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ تدریس کے عام مقاصد مندرجہ ذیل ہیں تدریس کا مقصد سر گرمیوں کے لئے مواقع فراہم کرنا ہے۔ نفسیاتی طور پر بچہ کچھ نہ کچھ صلاحیتیں رکھتا ہے۔ وہ مختلف سر گرمیوں کو سر انجام دینے کی رغبت رکھتا ہے۔ اس کے اپنے جذبات واحساسات ہوتے ہیں۔ استاد کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کے ان رجحانات اور جذبات کی روشنی میں اپنی تدریس کا رخ موڑے اور بچے کی شخصیت کی تعمیر کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو سکے۔
تدریس کا مقصد تحریک پیدا کرنا ہے۔ ایک اچھے استاد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کے رجحانات اور دلچسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کرے اور سبق کو دلچسپ بنانے کی طرف پوری توجہ دے تاکہ بچوں میں تعلیم کے لئے تحریک پیدا ہو۔

تدریس کا مقصد بچے کے جذبات کی تربیت کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بچے کے اندر مثبت احساسات پیدا کرنے کے علاوہ اس کے جذبات میں توازن اور پختگی پیدا کرے تاکہ بچے کی سوچ کو تیری رُخ دیا جا سکے۔ نیز بچوں میں ڈر اور خوف دور کر کے احساس تحفظ پیدا کیا
جائے ۔ منفی رجحانات اور احساسات کی روک تھام کی جائے۔ چنانچہ کھیل ، ورزش ،، ڈرامے وغیرہ بچے میں پختگی ، احساس تحفظ اور اعتماد پیدا
کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

تدریس در حقیقت تعلیم یا آموزش کے لئے ترغیب کا عمل ہے۔ تدریس کی بدولت بچے اور معلم کے درمیان تعلق پیدا کیا جاتا ہے۔ اس تعلق کو مناسب بنیادوں پر استوار کرنے کی ذمہ داری استاد پر عائد ہوتی ہے۔ استاد یہ دیکھتا ہے کہ بچہ کس طرح مختلف ماحول میں سیکھ کر
مناسب رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔
تدریس کا عمل بچوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ بچے فطری طور پر نئی نئی چیزوں کے متعلق جاننا چاہتے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے میں تجس کا اظہار کرتے ہیں۔ اچھا استاد اپنی تدریس کی بدولت بچوں کی ضروریات اور دلچسپیوں کے مد نظر معلومات بہم پہنچاتا ہے۔

تدریس کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ بچے کو ماحول میں مطابقت پیدا کرنے میں مدد دے۔ بچے مختلف ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ نئے حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اچھی تدریس بچوں کو ماحول کے ساتھ مطابقت کرنے میں معاون ہوتی ہے۔

تدریس کا مقصد بچے کی شخصیت کو استوار کرنا ہے۔ استاد بچے کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم کی تنظیم بھی کرتا ہے اور بچے کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی منزل کے رخ کا تعین کر سکے۔ یہ سب صرف اچھی اور موثر تدریس سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

سبقی خاکے کے مراحل مثالوں کی مدد سے بیان کریں۔


سیقی خاکے کے مراحل
ہر بارث پہلا ماہر تعلیم تھا جس نے تدریس کو باقاعدہ نفسیاتی رنگ دیا۔ اس نے پڑھانے کا نفسیاتی طریقہ بتایا۔ اس کا خیال تھا کہ ہر سبق پانچ حصوں میں تقسیم کر کے پڑھایا جا سکتا ہے اور یہی حصے ہر بارٹ کے پانچ رہی اقدامات کہلاتے ہیں۔ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ساری تعلیمی دُنیا میں انہی رسمی
اقدامات سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ اقدامات درج ذیل ہیں

تیاری (2) استحضار (3) تشریح (4) تعمیم (5) اطلاق اور اعاد 

استاد کو چاہئے کہ اپنے سبق کا تحریری خاکہ ان اقدامات کے تحت بنائے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر سبق کے لئے یہ پانچوں اقدامات لازمی طور پر کام میںلائے جائیں۔ بہر حال موقع اور ضرورت کے تحت تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ سبق کوئی بھی ہو ، اس بنیادی ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں آتا اور ان اقدامات کی اہمیت کو آج کے ترقی یافتہ معاشرے کے ہر استاد نے بھی تسلیم کیا ہے۔

کسی سبق کو ان اقدامات کے تحت ترتیب دینے سے پہلے اُستاد کو چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ وہ دیکھے کہ سبق کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لئے کس قسم کے سمعی بصری مواد سے مدد لینا پڑے گی۔ سمعی بصری مواد کا استعمال مشکل اور پیچیدہ معلومات کو آسان بنادیتا ہے، بچوں میں سبق کے لئے آمادگی پیدا کر دیتا ہے ، سبق میں زندگی اور دلچسپی کا سبب بنتا ہے۔ اُستاد اس مواد کے استعمال میں جتنا محتاط ہوگا،

سبق میں اتنی ہی زیادہ تاثیر پیدا ہو گی۔ خواہ مخواہ سبق کو بہت سی سمعی بصری اشیاء سے بو جھل بناد بنا وقت ، محنت اور پیسے کو ضائع کرنا ہے۔ سبق کی نوعیت اور اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے استاد مناسب ترین اشیاء سے کام لے اور جو مواد ا سے استعمال کرنا ہے اُسے لکھ لے اور پھر اشارات سبق میں مناسب جگہوں پر اس کے استعمال کی با قاعدہ نشان دہی کرے۔ دوسری اہم چیز مقاصد کا تعین ہے۔

ہر مضمون کے پڑھانے کے مقاصد جُدا جُدا ہوتے ہیں۔ سائنس ، ریاضی ، زبان، جغرافیہ وغیرہ، نوعیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کی تدریس کے مقاصد بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اسی طرح زبان دانی کے مختلف حصوں نثر نظم بقواعد ، انشاو غیرہ کے پڑھانے کے مقاصد جداجدا ہیں۔ اُستاد سبق پڑھانے سے پہلے ہی مضمون اور عنوان کے پیش نظر چند مقاصد لکھ لیتا ہے اور پھر اپنے سبق کو اس مرکز سے علیحدہ نہیں ہونے دیتا۔ اس طرح اُستاد کے لئے ایک خاص منزل کا تعین ہو جاتا ہے اور وہ ادھر ادھر نہیں بھٹکتا اور بچے بھی غیر متعلق اور بے ترتیب مواد سے محفوظ رہتے ہیں۔

تمہید یا تیاری

سبق کی نوعیت کے اعتبار سے ہم سبق کا آغاز کہانی، دلچسپ واقعے ، شعر یا نظم ہوالات غرض کسی بھی طریقے سے کر سکتے ہیں۔ مقصد بچوں کو سبق کے لئے تیار کرنا ہے۔ تمہید بہت دلچسپ ہونی چاہئے اور یہ دلچپسی ، وسائل اور موقع کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی طریقے سے کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر یہ کام سوالات سے لیا جاتا ہے۔ یہ تمہیدی سوالات کہلاتے ہیں۔ ان کا مقصد بچوں کی سابقہ واقفیت کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور پھر سبق کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس طرح اُستاد کو بچوں کی سابقہ معلومات کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے اور بچے نے سبق کے لئے آمادہ بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ سوالات پچھلے اسباق سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں اور بچے کی روز مرہ زندگی سے بھی سوالات اور ان کے متوقع جوابات لکھ لئے جاتے ہیں۔

استحضار

عنوان کے اعلان کے بعد اُستاد سبقی مواد کو تین یا چارا کائیوں میں تقسیم کرتا ہے اور شروع میں سارے سبق کو سرسری طور پر جماعت کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یوں بچوں کے ذہنوں میں نئے سبق کا دھندلا سا خاکہ بن جاتا ہے۔ اس مرحلے میں اُستاد لمبی تشریح اور وضاحت میں نہیں الجھتا۔ اس کا مقصد بچوں کو سبق کا سر سری تعارف کرنا ہوتا ہے مثلاً معاشرتی علوم کے سبقی مواد کو اُستاد مختلف اشارات کی مدد سے صرف بیان کرتا ہے۔ زبان کے سبق میں نثر کے دویا تین پیرا گراف استاد اور شاگرد صرف با آواز پڑھتے ہیں۔ ہر مضمون میں سبق کی پیش کش مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔

تشریح

اس قدم میں اُستاد سبقی مواد کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ مختلف اکائیوں کو ایک ایک کر کے سوال و جواب سمعی بصری مواد اور دوسرے ذرائع سے واضح کرتا ہے اور ہر اکائی کے خاتمے پر چند سوالات سے جزوی اعادہ کرتا ہے تا کہ سبقی مواد کا ہر جز و ساتھ ساتھ ذہن نشین ہوتار ہے۔ تشریح کے سلسلے میں ایک بات اہم ہے کہ تشریح کا سارا کام اُستاد اپنے ذمے نہ لے اور نہ اسے کلی طور پر طلبہ پر چھوڑ دے، یعنی اُستاد پوری کوشش کرے کہ اکثر معلومات بچوں ہی سے اخذ کروائے۔ اس کے لئے وہ سوالات سے مدد لے سکتا ہے۔

انہیں ارتقائی سوالات کہتے ہیں۔ جہاں اُستاد یہ دیکھے کہ بچے سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں تو وہاں خود تشریح کرے۔ اس سلسلے میں استاد صرف زبانی تشریح پر بھروسہ نہ کرے بلکہ چارٹ، تصاویر ، تختہ سیاہ، ماڈل وغیرہ سے مدد لے۔ بچوں کو جوابات دینے پر اکساتا رہے تاکہ جماعت میں بہا مقصد سر گرمی نظر آئے ہی میں بچہ خود کو شریک سمجھے اور مواد اس پر پوری طرح واضح ہو جائے۔

تعمیم

روز مرہ زندگی کی خاص مثالوں کی مدد سے عام نتیجہ ،اصول یا کلیہ اخذ کرنا تمیم کہلاتا ہے۔ یہ ان مضامین میں کیا جاتا ہے جن میں کسی تفصیلی مواد و مختصر نتیجے کی صورت میں پیش کرنا ہو۔ سائنس، ریاضی، جغرافیہ ، قواعد زبان وغیرہ کی تدریس میں مختلف مثالوں سے اُستاد کوئی اصول، کلید گردان، تعریف بچوں سے اخذ کرواتا ہے تا کہ وہ مختصر بات بچوں کے ذہن نشین ہو جائے ۔ مثال کے طور پر بچوں کو یہ بات بتانے کے بعد کہ زمین کول ہے، روزمرہ زندگی سے مثالیں دے کر نتیجہ بچوں کے ذہن میں راسخ کرے۔ اسی طرح یہ بتا کر کہ مثلث کارقبہ کیا ہوتا ہے، مشقی سوالات سے اس فارمولے کوبچوں کے ذہن میں پختہ کر دے۔

اطلاق اور کلی اعادہ

جب اُستاد سبق پڑھا چکے تو تدریس کی تاثیر کا اندازہ لگانے کے لئے چند سوالات سے پورے سبق کا اعادہ کرے۔ ان اعادی سوالات کے علاوہ استاد بچوں سے خلاصہ لکھوا کر یاز بانی سن کر ، جماعت میں بحث کر واکر یا کسی بھی اور مناسب طریقے سے اعادہ کر سکتا ہے۔

تدریسی مقاصد کے لیے درج ذیل معاونات کی اہمیت بیان کریں۔

الف تختہ اطلاعات ( بلیٹن بورڈ)۔

تختہ اطلاعات پر تعلیمی اہمیت کی تصویر میں یا تراشے لگائے جاتے ہیں۔ یہ طلبہ کے لئے بے حد کار آمد ہوتا ہے۔ یہ تختہ موٹے گئے، کارک یا نرم لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے دلکش بنانے کے لئے اس پر کوئی خوش نمار تنگ کر دیا جاتا ہے۔ تختے کے سائز کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسے کہاں استعمال کرنا ہے ؟ کمرے کا سائز کیا ہے ؟ کیسا مواد چسپاں کرنا ہے ؟ تختہ اطلاعات ایک کمرہ جماعت کے لئے بھی ہو سکتا ہے ، ایک در ہے، ایک شعبے یا پورے مدرسے کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ تختہ اطلاعات پر مدرسے کی خبریں، اطلاعات و اشتہارات ، کتابچے ، کارٹون، اخبار کے تراشے، ڈرائنگ، گراف، نقش ، تصاویر، تصویری پوسٹ کارڈ وغیرہ لگائے جاتے ہیں تختہ اطلاعات کا مقصد بچوں کو دلچسپ اور مفید معلومات فراہم کرتا ہے۔

اس کے ذریعے ہم کسی اہم ملکی واقعے مثلاً سیلاب، جنگ شخصیت کا دورہ وغیرہ کو مشتہر کر سکتے ہیں۔ مختلف اداروں اور انجمنوں کی کار گزاری کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ نئی کتابوں کا تعارف پیش کر سکتے ہیں۔ بچوں کے مشاغل کی نمائش بھی اس کی مدد سے ہو سکتی ہے۔ بلیٹن بور ڈ ایسی جگہ رکھا جائے جہاں روشنی ہو ۔ طلبہ کی آمد ورفت ہو اور اس پر نظر پڑ سکے۔ اسے برآمدہ، لائبریری، ہال ، ڈیوڑھی، تجربہ گاہ یا کمرہ جماعت میں کہیں بھی اسکا یا جا سکتا ہے۔اسے مختلف مواد سے بھر دینا درست نہیں۔

چیزیں کم ہوں مگر ان کی نمائش سلیقے ترتیب اور صفائی سے کی جائے کبھی کبھی بچوں کی سر گرمیوں کی نمائش بھی اس کی مدد سے کریں۔ اگر بچوں کی ڈرائینگ ، تحریر اور مشغلوں کو تختہ اطلاعات سے ظاہر کیا جائے گا تو بچے زیادہ دلچسپی اور سر گرمی کا اظہار کریں گے۔ اسے مردہ اور بے مصرف ہونے سے صرف اسی صورت میں بچایا جا سکتا ہے کہ اس پر چسپاں مواد کو بدلا جاتا رہے۔ اس پر جو مواد بھی پیش کریں۔ اس پر مختصر الفاظ میں عنوان ضرور لکھیں اور اس عنوان میں بھی کوئی نیا پن اور دلکشی ہوتا کہ طلب فورا متوجہ ہو سکیں۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ بلیٹن بورڈ کے لئے مواد تیار کریں اور نمائشی مواد بھی خود ہی چسپاں کریں۔

فلم یا متحرک تصوریریں۔

فلم کی تعلیمی اہمیت یقیناً بہت زیادہ ہے لیکن ہمارے ہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے مدارس میں متحرک تصاویر کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی اہمیت کی فلموں سے استفادہ کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ ہم بچوں کو سینما میں لے جاکر کار آمد اور مفید فلم دکھا سکتے ہیں۔ محکمہ اطلاعات یا محکمہ تعلیم مدرسوں میں ایسے فلم شود کھا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فلم دکھانے کا سامان مدارس ہی میں موجود ہوتا ہے اور مختلف اداروں سے تعلیمی اہمیت رکھنے والی فلمیں لے کر بچوں کو دکھائی جاتی ہیں۔

اسی طرح مدرسہ اپنی ضرورت کے مطابق اچھی اور معیاری فلموں کا انتخاب کر سکتا ہے اور سارا سال بچوں کو دلچسپ اور مفید تصویر میں دکھائی جاتی ہیں۔ ہمارے مدارس میں ابھی یہ صورت حال نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مختلف محکموں اور اداروں سے مدد لینا پڑتی ہے۔ جن ممالک میں فلم کو تعلیم و تدریس میں باقاعدہ استعمال کیا جارہا ہے وہاں کے مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ فلم کی بدولت بچے تعلیم میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں،

وہ سکھنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی توجہ پوری طرح فلم کے واقعات میں جذب ہو جاتی ہے،اس لئے تعلیم پائیدار ہوتا ہے۔ فلمیں تاریخ، جغرافیہ ، سائنس اور دوسرے مضامین میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ دن رات کا پیدا ہونا، موسموں کا تغیر و تبدل، اسلامی کا نفرنس کا حال یا سائنس کا کوئی تجر بہ فلموں کے ذریعے واضح بھی ہو جاتا ہے اور بچے مسلسل توجہ اور دلچسپی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

نصاب کے جدید تصور کی وضاحت کریں نیز ہم نصابی سر گرمیوں کی نصاب میں اہمیت و ضرورت بیان کریں۔

نصاب کا قدیم تصور : نصاب کا قدیم تصور یہ تھا کہ نصاب چند مضامین کا مجموعہ ہے۔ قدیم نصاب کا اہم مقصد طلبہ کی ذہنی نشو و نما اور حافظے کی تربیت سمجھا جاتا تھا۔ یہی وہی تھی کہ سارا انصاب بچے یا بچی کی قوت حافظہ کے بل بوتے پر ختم ہوتا تھا۔ اگر مدرسہ کے اندر ہونے والی سر گرمیوں کو نصاب میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی تو وہ معیوب سمجھی جاتی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ ایسی سر گرمیوں یا مشاغل کو نصاب کی خارجی سر گرمیوں کا نام دیا جاتا تھا۔ قدیم نصاب کی دوسری خاص بات یہ تھی کہ معلم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور بچے کی ذہنی صلاحیتوں یا اس کی ذاتی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ اس نصاب میں کسی مؤثر طریقہ تدریس یاند بیر کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس نصاب کا دار و مدار طالبعلم کی قوت حافظہ اور مشق و تکرار پر تھا۔ نصاب میں زیادہ سے زیادہ مضامین رکھے جاتے تھے تاکہ طالب علم کی جدا گانہ ذہنی صلاحیتوں کی تربیت کی جاسکے۔

ہم نصابی مشاغل کا مفہوم اور اہمیت

ہم نصابی مشاغل سے مراد وہ مشاغل یا سر گرمیاں ہیں جو بظاہر نصاب تعلیم میں شامل نہیں لیکن ان کے بغیر تعلیم و تربیت نا مکمل اور غیر مؤثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نصابی مشاغل کی تدریس ایک مضمون کی طرح کمرۂ جماعت میں نہیں کی جاسکتی لیکن اس سے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نصابی مشاغل کی بدولت بچے کی ذہنی نشو و نما کے علاوہ اس کی جسمانی، اخلاقی اور جذباتی نشو و نما بھی ہوتی ہے۔

اس طرح یہ مشاغل کو یا نصاب کی تکمیل کرتے ہیں اور ہم تعلیم کی مکمل نشو و نما کے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نصابی مشاغل کو زائد از نصاب مشاغل کا نام دے کر بے کار سمجھا جاتا تھا۔ یہ خیال عام تھا کہ ان کا نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کتاب سے ہٹ کر جملہ مشاغل کو غیر نصابی سر گرمیوں کا نام دیا جاتا تھا۔ لہذا ان کی تنظیم اور ترقی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاتی تھی۔ طلبہ کی مرضی پر تھا کہ ان میں حصہ لیں یا نہ لیں۔

کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے بچوں کو اس قسم کی سرگرمیوں سے باز رکھا جائے کیونکہ ان کے نزدیک یہ مشاغل نہ صرف اچھی تدریس کے راستے میں رکاوٹ تھے بلکہ اس سے بچے کام چور اور لاپر واہ ہو جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان مشاغل سے نظم و نسق سے متعلق کئی قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں، لہذا ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اگر بچے کھیل کود کے لئے اصرار کریں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ، اساتذہ ان پر وقت ضائع نہ کریں۔ اس سوچ

کی بدولت مضامین کی تدریس پر زیادہ وقت خرچ کیا جاتا تھا۔ اس سے امتحانی نتائج تو اچھے نکلتے تھے لیکن اس سے بڑا نقصان یہ ہوتا تھا کہ طلبہ محض کتابی کیڑے بن کر رہ جاتے تھے اور ان کی ہمہ پہلو نشو و نما کا خواب پورا نہ ہو سکتا تھا۔ زمانے کے ساتھ ساتھ انداز فکر میں تبدیلی پیدا ہوئی۔

یہ محسوس کیا جانے لگا کہ تعلیم محض چند کتابیں پڑھا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بچوں کو ایسے مواقع اور رہنمائی مہیا کرنا ہے جن سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اس طرح وہ اپنی دینی اور جسمانی قوتوں کو پیدا کر سکیں۔

اس میں احساس فرض، سلیقہ ، بلند خیالی و تعاون کا جذ بہ اور محنت و عمل کا شوق پیدا ہو اس مقصد کے لئے سماجی مشاغل کو جنہیں پہلے غیر نصابی مشاغل کہا جاتا تھا، زیادہ اہمیت دی جانے لگی یہ تسلیم کر لیا گیا کہ تعلیمی عمل کمرہ جماعت کی باہر کی سر گرمیوں کے ذریعے بھی پورا کیا جا سکتا ہے اور بچے کی مکمل تربیت کے لئے کھیل اور دیگر سماجی و تفریحی مشاغل بھی نہایت ضروری ہیں۔

موجودہ نظریہ کے تحت کھیل کے میدان کو بغیر چھت اور دیوار کا کمرہ کہا جاتا ہے جہاں کمرہ جماعت میں ایک طالب علم حقائق سے واقفیت حاصل کرتا ہے تو کھیل کے میدان میں اس کی جذباتی اور اخلاقی نشو و نما ہوتی ہے اس میں مقصد سے لگن، حوصلہ مندی، اتحاد، محنت اور اطاعه بہ پیدا ہوتا ہے۔

یہ چیزیں تعلیم و تربیت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ موجودہ تعلیمی نظریات میں ہم نصابی مشاغل کو بہت اونچا مقام دیا جاتا ہے اور اسے تعلیم کے سماجی مقصد کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مدرسہ ایک کارخانہ ہے جہاں شہریوں کو ڈھالا جاتا ہے۔

مختلف ممالک مثلاً انگلینڈ بہتر کی اور مصر وغیرہ کے تعلیمی اداروں میں زمانہ قدیم سے ہی ان معاشرتی سر گرمیوں کو نصاب کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی شخصیت کو ایسا ڈھالیں کہ وہ عمدہ کردار کے مالک مضبوط ، باہمت ہمستقل مزاج اور ملک وملت کے لئے مفید افراد بن سکیں۔

انگلستان کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت تھی جو مفتوحہ علاقوں کا کاروبار حکومت سنبھال سکیں۔ لہذا انہوں نے شروع سے ہی بچوں میں محب الوطنی کے علاوہ خود اعتمادی، قوت فیصلہ ، بلند نگاہی ، اتحاد و تعاون اور مسائل کو سلجھانے کی اہلیت پیدا کر نا تعلیم کا مقصد ٹھہرایا اور ہم نصابی مشاغل کو نظام تعلیم میں بڑا اہم مقام دیا۔

اس کے نتیجے میں انگریزوں نے کم تعداد ہونے کے باوجود ایک ایسی بڑی سلطنت پر حکومت کی جہاں پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ ڈیوک آف لنگٹن نے کہا تھا کہ واٹر لو ” کی جنگ ایٹن کے کھیل کے میدانوں میں جیتی گئی۔

یاد رہے کہ این انگلستان کا ایک مشہور پبلک سکول ہے جہاں طلبہ کو کھیلوں اور دیگر ہم نصابی سر گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔ انگلستان کے علاوہ دوسرے مغربی ممالک میں بھی کھیل کو د اور دوسری سر گرمیوں کی طرف بڑی توجہ دی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اب انہیں مناسب اہمیت دی جانے لگی ہے۔ ان پر عمل کرنے کے لئے ساز و سامان مواقع اور سہولتیں فراہم کی جا اگر چہ اب بھی کمرہ جماعت کے تعلیمی عمل کو ترجیح دی جاتی ہے اور بڑی حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے۔

ایلمنٹری سطح (پہلی سے آٹھویں جماعت) کے لیے ہم نصابی سر گرمیوں کی اہمیت و ضرورت بیان کریں۔

اہمیت و ضرورت ہم نصابی سر گرمیاں ابتدائی سطح کے طلباء ( پہلی سے آٹھویں جماعت) کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب کہ تعلیمی مضامین طلباء کو علم اور ہنر فراہم کرتے ہیں، ہم نصابی سر گرمیاں ان کی مجموعی ترقی کو بڑھاتی ہیں اور انہیں ایسے قیمتی تجربات فراہم کرتی ہیں جو صرف نصابی کتابوں کےذریعے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ ابتدائی طلباء کے لیے ہم نصابی سر گرمیوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجا گر کرنے والی کچھ وجوہات یہ ہیں :

ہمہ گیر ترقی

ہم نصابی سر گرمیاں جسمانی، سماجی، جذباتی، اور علمی نشو و نما پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک اچھی تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ یہ سر گرمیاں طلباء کو تعلیمی نصاب سے ہٹ کر مختلف صلاحیتوں ، مہارتوں اور دلچسپیوں کو تلاش کرنے اور تیار کرنے کے قابل بناتی ہیں۔

ہنر میں اضافہ

ہم نصابی سر گرمیاں طلباء کو مختلف مہارتیں حاصل کرنے اور ان کو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرتی ہیں جیسے کہ قیادت، ٹیم ورک، مسئلہ حل کرنا، تنقیدی سوچ ، مواصلات ، وقت کا انتظام ، اور تخلیقی صلاحیت۔ یہ مہارتیں تعلیمی اور حقیقی زندگی دونوں صورتوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔

متوازن معمولات

ہم نصابی سر گرمیوں میں مشغول طلباء کو تعلیمی اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کے درمیان توازن قائم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ انہیں اپنے وقت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے ، اپنے وعدوں کو ترجیح دینے ، اور صرف تعلیمی دباؤ سے مغلوب ہونے سے بچنے کی اجازت دیتا ہے۔

اعتماد سازی

ہم نصابی سر گرمیوں میں حصہ لینے سے خود اعتمادی اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ طلباء جب مقابلوں، نمائشوں، پریزنٹیشنز، یا کسی دوسرے پرو گرام میں اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انہیں کامیابی کا احساس حاصل ہوتا ہے۔ یہ مثبت کمک انہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین پیدا کرنے میںمدد دیتی ہے اور دوسرے شعبوں میں بھی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے ان کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔

سماجی اور جذباتی ترقی

ہم نصابی سر گرمیاں سماجی تعامل کو فروغ دیتی ہیں اور جامعیت کو فروغ دیتی ہیں۔ طلباء کو تعاون کرنے، ٹیموں میں کام کرنے، دوستی بنانے ، اور تنوع کا احترام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سر گرمیاں طلباء کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرنے، لچک پیدا کرنے، تناؤ کو منظم کرنے اور زندگی کے تئیں مثبت رویہ پیدا کرنے کا ایک پلیٹ فارم بھی تیار کرتی ہیں۔

دلچسپیوں کی کھوج

ہم نصابی سر گرمیاں طلباء کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ مختلف شعبوں اور دلچسپیوں کو ان چیزوں سے باہر تلاش کریں جن کا انہیں کلاس روم میںسامنا ہو سکتا ہے۔ وہ کھیلوں ، فنون، موسیقی، رقص، ڈرامہ ، بحث، روبوٹکس، کوڈنگ اور بہت کچھ جیسی سر گرمیوں میں مشغول ہو سکتے ہیں۔ یہ تلاش طلباء کو ان کے جذبے، طاقتوں اور ہنر کو دریافت کرنے میں مدد کرتی ہے ، جو ان کے مستقبل کے کیریئر کے راستوں کو تشکیل دے سکتی ہے۔

صحت اور تندرستی

ہم نصابی سر گرمیاں جسمانی تندرستی، صحت اور مجموعی طور پر تندرستی کو فروغ دیتی ہیں۔ طلباء کھیلوں، آؤٹ ڈور گیمز ، اور دیگر جسمانی سر گرمیوںمیں مشغول ہوتے ہیں، جو ان کی جسمانی نشو و نما میں حصہ ڈالتے ہیں، موٹر مہارتوں کو بہتر بناتے ہیں، اور بیٹھے رہنے والے طرز زندگی کو روکتے ہیں۔

ذاتی تکمیل

 ہم نصابی سر گرمیاں طلباء کو اپنی دلچسپیوں اور جذبات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔ جب طلباء ان سر گرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں، تو وہ ذاتی تکمیل ، اطمینان، اور مقصد کے احساس کا تجربہ کرتے ہیں، جو مجموعی خوشی اور فلاح کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نصابی سر گرمیاں ابتدائی سطح کے تعلیمی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

وہ اچھی طرح سے تعلیم فراہم کرتے ہیں، مہارتوں کو بڑھاتے ہیں، اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں، سماجی اور جذباتی نشو و نما کو فروغ دیتے ہیں، دلچسپیوں کی تلاش کے قابل بناتے ہیں، صحت اور تندرستی کو فروغ دیتے ہیں، اور ذاتی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اسکولوں کو ایک متوازن نصاب کو یقینی بنانا چاہیے جس میں تعلیمی اور ہم نصابی سر گرمیاں دونوں شامل ہوں تاکہ طلبہ کو اچھے افراد میں ترقی کرنے میں مدد ملے۔

You May Also Like to Read…

Assignment No 1 Solution Course Code 313

Assignment No 1 Solution Course Code 219

Assignment No 2 Solution Course Code 219

Assignment No 1 Solution Course Code 217

Assignment No 2 Solution Course Code 217

SSC Pariksha Result 2024

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *